Friday, August 12, 2011

گریٹر نوئیڈا تحویل اراضی معاملہ: خواب بننے اور ٹوٹنے کی داستان‎


فردوس خان
تحویل اراضی معاملے میں سرکار کا رویہ اور اعلیٰ افسروں کا لالچ کسانوں،بلڈروں اور اپنے گھر کا خواب سجانے والے لوگوں کے لیے مصیبت کا سبب بن گیا ہے۔ سرکار کی کوتاہی یہ ہے کہ تحویل اراضی نظرثانی بل کو اب تک قانون کا درجہ نہیں دیا گیا۔ انگریزی دور کا قانون آج بھی نافذ ہے، جس کے سبب اکثر عوام اور سرکار کے درمیان ٹکرائو کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ موجودہ تحویل اراضی قانون 1894 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس وقت سرکار نے اس قانون کے ذریعہ عوامی ترقیاتی کاموں کے علاوہ سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کا کام کیا تھا۔آزادی کے بعد خاص طور پر 1990 کی دہائی میں  لبرل ازم اور نجکاری کو بڑھاوا ملنے کے دور میں اسی قانون کا سہارا لے کر سرمایہ داروں نے لوگوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کردیا۔ سال 2005 میں مزید اقتصادی علاقے ایکٹ (ایس ای زیڈ)پاس ہونے کے ساتھ ہی سرمایہ داروں کو اور زیادہ تحویل اراضی کے مواقع  مل گئے۔ حالانکہ ایس ای زیڈ کی کافی مخالفت بھی کی گئی۔ کانگریس کی قیادت والی مرکز کی یو پی اے سرکار نے تحویل اراضی نظر ثانی بل لانے کا وعدہ کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ 6 دسمبر 2007 کو اس وقت کے دیہی ترقیات کے وزیر رگھوونش پرساد پارلیمنٹ میں تحویل اراضی نظر ثانی بل 2007 پیش کر چکے ہیں۔ اس وقت یہ بل رائے دہی کے لیے دیہی ترقیاتی کمیٹی کو دیا گیا تھا۔ تقریباً آٹھ ماہ بعد کمیٹی نے اکتوبر 2008 میں پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ پھر دسمبر 2008 میں وزراء کے گروپ نے کمیٹی کے ذریعہ دیے گئے مشوروں پر اتفاق کیا تھا اور اسے تحویل اراضی نظر ثانی بل 2009 کا نام دیتے ہوئے 25 فروری 2009 کو پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا تھا، مگر اس کے بعد اس بِل کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔

تحویل اراضی کے خلاف گریٹر نوئیدا کے گائوں بھٹہ پارسول میں کسانوں اور پولس کے درمیان خونی مقابلے کے بعد اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ مایا وتی نے گزشتہ جون میں نئی تحویل اراضی پالیسی کا اعلان کر کے کسانوں کو منانے کی کوشش کی۔ اس نئی تحویل اراضی پالیسی کے مطابق پرائیویٹ کمپنیوں کو کسانوں سے سیدھے زمین خریدنی ہوگی ۔ ریاستی سرکار صرف ثالثی کا کردار ادا کرے گی اور وہ صرف تحویل اراضی کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ پرائیویٹ کمپنیاں اس وقت تک کسانوں کی زمین تحویل میں نہیں لے سکیں گی جب تک اس علاقے کے 70 فیصد کسان اس کے لیے راضی نہیں ہو جاتے۔ پالیسی میں یہ بھی صاف کیا گیا ہے کہ تحویل شدہ اراضی کا 16 فیصد میں تعمیراتی کام مکمل کرنے کے بعد اسے کسانوں کو مفت دینا ہوگا، جس پر اسٹامپ ڈیوٹی نہیں لگے گی۔ تحویل اراضی کے عوض کسان کو 33 سال کے لیے 23 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے سالانہ ادا کیا جائے گا۔جو زمین معاوضے کے علاوہ ہوگی اس کی ادائیگی پر سالانہ 800 روپے کا اضافہ ہوگا۔ اگر کسان سالانہ ادائیگی نہیں لینا چاہے گا تو اسے یک مشت 2,76,000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے بازآبادکاری گرانٹ دیا جائے گا۔ اگر معاوضے کی رقم سے ایک سال کے اندر صوبے میں کہیں بھی زراعتی زمین خریدی جاتی ہے تو اس میں بھی اسٹامپ ڈیوٹی سے پوری چھوٹ ملے گی۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ کمپنیوں کو تحویل اراضی سے بے زمین ہو رہے خاندان کے ایک ممبر کو نوکری دینی ہوگی۔ تحویل اراضی سے متاثر ہر گائوں میں ڈیولپر تنظیم کے ذریعہ ایک کسان بھون کی تعمیر اپنے خرچ پر کرانا ہوگی۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ کے شعبے میں درجہ آٹھ تک ایک ماڈل اسکول کھیل کے میدان سمیت آپریٹ کرنا ہوگا۔ اسی پالیسی میں راج مارگ اور نہر  جیسی بنیادی ضرورتوںکے لیے تحویل اراضی کا کام معاہدے کے تحت آپسی رضامندی سے طے کیا جانا بھی شامل ہے۔ غور طلب ہے کہ 165 کلو میٹر یمنا ایکسپریس وے کے 2500 کروڑ کے اس منصوبے کے تحت نوئیڈا ، گریٹر نوئیڈا، بلند شہر، علی گڑھ ، ہاتھرس، متھرا اور آگرہ کے قریب 334 گائووں کی زمین تحویل میں لی جانی ہے۔ اس ہائی وے کے قریب پانچ جگہوں پر ٹائون شپ اور اسپیشل ایکانومک ژون  بنائے جانے ہیں۔ یہ پروجیکٹ جے پی گروپ، مونٹی چڈھا اور  دیگر بلڈروں کی ہے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ جولائی ماہ کے پہلے ہفتہ میں گریٹر نوئیڈا تحویل اراضی  معاملے کی سنوائی کرتے ہوئے ریاستی سرکار کو جم کر پھٹکار لگائی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح بتاتے ہوئے گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا۔ جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس اے کے گانگولی کی بینچ نے کہا کہ ریاستی سرکار نے تحویل اراضی قانون کو استحصال کا قانون بنا دیا ہے۔ ملک بھر میں ایک خطرناک مہم چلائی جا رہی ہے اور انگریزوں کے زمانے کے قانون کے زریعہ غریبوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ عدالت نے تبصرہ کرتے  ہوئے کہا کہ اس سے کچھ بلڈر فائدہ اٹھاتے ہیں اور غریب کسان برباد ہو جاتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کسان کے نام پر آپ کیا کر رہے ہیں؟یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سرکار کسی تحویل شدہ زمین کی آمدنی سے وہاں نہریں اور پُل وغیرہ بنائے، لیکن آپ مَول اور کمرشیل ٹائون شپ بنا رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ رہائشی علاقہ ہے، لیکنشہ کس کے لیے ہے؟ جن لوگوں کی زمینیں لی گئی ہیں، کیا وہ ضرورت مند نہیں ہیں؟جو عمارتیں بنائی جا رہی ہیں، اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں سوئمنگ پُل ، آیورویدک مساج پارلر اور ہیلتھ کلب وغیرہ ہوں گے، کیا یہ غریبوں کے لیے ہیں؟ ججوں کو بیوقوف نہ سمجھا جائے۔  اس سے پہلے کی سنوائی میں بھی عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ریاستوں میں نندی گرام جیسے حادثے نہیں چاہتی ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں تب آیا، جب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش سرکار کے گریٹر نوئیڈا میں 400  ہیکٹئر زمین کی تحویل کو غیر قانونی ٹھہراتے ہوئے رد کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور کچھ ڈیولپرس نے سپریم کورٹ میں رِٹ دائر کی تھی۔ گریٹر نوئیڈا کی اس تحویل اراضی پر 50 سے زیادہ بلڈرس اپنے پروجیکٹس پلان کر رہے تھے۔ اس معاملے میں اتر پردیش سرکار نے ارجینسی کلاز کے تحت زمین تحویل میں لی تھی۔ اس کلاز کے تحت سرکار کسانوں سے ان کے اعتراضات سنے بغیر ہی زمین ایکوائر کر سکتی ہے۔

اس سے پہلے 18 اپریل کو سپریم کورٹ نے گوتم بدھ نگر میں گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعہ کمرشیل مقصد کے لیے کسانوں کی 205 ایکڑ زمین کی تحویل کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جائداد کا حق قانونی حق ہے اور سرکار من مانے طریقے سے کسی شخص کو اس کی زمین سے محروم نہیں کر سکتی۔ جسٹس جی ایس سنگھوی  اور جسٹس اے کے گانگولی کی بینچ نے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 300 اے کے  مطابق کسی بھی شخص کو اس کے سرمائے سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ زمین کے مالکوں رادھے شیام اور دیگر نے عدالت میں ایک رِٹ داخل کر کے مارچ 2008 میں کی گئی تحویل اراضی کو چیلنج کیا تھا۔ اتر پردیش سرکار نے ستمبر 2007 میں تحویل اراضی  کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا اور اس کے بعد کسانوں سے 850 روپے فی مربع میٹر کی شرح سے زمین لی گئی تھی۔ کسانوں کا الزام ہے کہ گریٹر نوئیڈا اتھارٹی نے  صنعت کاری  کے لیے زمین ایکوائر کی تھی لیکن اسے زیادہ قیمت پر بلڈروں کو بیچ دیا گیا۔

نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا میں تحویل اراضی کے خلاف رِٹ پر سنوائی کر رہی الٰہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچنے کسانوں ، نوئیڈااتھارٹی اوربلڈروں سے معاملہ آپسی بات چیت کے ذریعے سلجھانے کو کہا تھا۔ جسٹس امیتاو لالا اور اشوک شریواستو کی بینچ نے گوتم بدھ نگر کے درجنوں گائووں کے سیکڑوں کسانوں کی رِٹ پر سنوائی کرتے ہوئے کہا کہ جو کسان تحویل اراضی کے بدلے معاوضہ لینا چاہتے ہیں، وہ 12 اگست تک لے سکتے ہیں،ساتھ ہی عدالت نے یہ معاملہ بڑی بینچ کو سونپ دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اس دوران کسی بھی کسان پر سمجھوتے کے لیے دبائو نہ ڈالا جائے۔ معاملے پر اگلی سنوائی 17 اگست کو ہوگی۔ ان کسانوں نے ریاستی سرکار کے ذریعہ تقریبا 3000 ہیکٹئر زمین کی تحویل کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے سرمایہ کاروں اور بلڈروں کی رِٹ پر کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ سرمایہ داروں نے نوئیڈا ایکسٹینشن فلیٹ بایرس ایسوسی ایشن کے بینر تلے، بلڈروں کے ساتھ خود کو اس معاملے میں پارٹی بنانے کی اپیل کی تھی۔ عدالت کو بسرکھ،روضہ یعقوب پور اور ہیبت پور کی کل 3251 ایکڑ زمین کی تحویل پر فیصلہ سنانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نوئیڈا ایکسٹینشن کے قریب ایک لاکھ فلیٹوں کا مستقبل طے ہو جائے گا۔ 12 مئی کوستیہ پال چودھری نام کے شخص کی رِٹ پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گریٹر نوئیڈا کے گائوں شاہ بیری میں قریب 156  ہیکٹئر زمین کی تحویل رد کر دی۔ 15 مئی کو دادری میں سورج پور کی 72 ہیکٹئر زمین کی تحویل رد کر دی گئی۔ 30 مئی کو گریٹر نوئیڈا کے گائوں گلستاں پور کی 170 ہیکٹئر زمین کی تحویل رد کر دی گئی۔ 31 مئی کو گائوں بسرکھ، جلال پور، دیولا میں زمین تحویل پر ہائی کورٹ نے اسٹے دیا اور 22 جون کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو گریٹر نوئیڈا اتھارٹی کے علاوہ کئی بلڈروں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ شاہ بیری میں سات بلڈروں کو عدالت کے حکم سے زمین لوٹانی ہوگی۔ ان میں امر پالی ، یونیٹیک، سپر ٹیک اور مہا گن شامل ہیں۔ امرپالی اور یونیٹیک کے آٹھ ہزار فلیٹ بننے ہیں، جبکہ سپر ٹیک اور مہا گن کے 400 وِلّا بننے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے چھ ہزار لوگ متاثر ہوں گے۔ امر پالی کا کہنا ہے کہ وہ سرمایہ کاروں کو دوسرے پروجیکٹس میں منتقل کر رہے ہیں۔ مہا گن کا بھی کہنا ہے کہ ان کے پروجیکٹس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جبکہ سپرٹیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے جو متنازعہ علاقے میں ہو۔

اس کے بعد عدالت نے 21 جولائی کو گائوں پت واڑی کی 450 ایکڑ زمین کی تحویل رد کر دی تھی۔ عدالت کے اس فیصلے سے قریب 20 ہزار فلیٹ کھٹائی میں پڑ گئے۔ اگر عدالت نے ان تینوں گائووں کی زمین کی تحویل رد کر دی تو گریٹر نوئیڈا  انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو نوئیڈا ایکسٹینشن کی کل 4089 ایکڑ زمین کسانوں کو واپس کرنی پڑے گی۔ نوئیڈا ایکسٹینشن کل 13 گائووں کی 8607 ایکڑ زمین کو ملا کر بنا ہے۔ اگر اس میںسے 4089 ایکڑ زمین گھٹا دی جائے تونوئیڈا ایکسٹینشن کے نام پر محض 4518 ایکڑ زمین بچے گی یعنی آدھا نوئیڈا ایکسٹینشن ختم ہو جائے گا۔ گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے گائوں شاہ بیری اور پت واڑی میں تحویل رد کیے جانے کے بعد یہاں لگے بلڈروں کے ہورڈنگس ہٹوا دیے۔ اس کے علاوہ کسانوں نے بھی کام کی جگہ پر جا کر وہاں چل رہے تعمیری کام کو رکوا دیا۔
کسانوں کی مخالفت کی وجہ سے نوئیڈا ایکسٹینشن کے فلیٹوں کی تعمیر خطرے میں پڑ گئی ہے۔ نوئیڈا میں اب تک بلڈروں نے ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ  رقم کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ نوئیڈا میں مونیٹیک ، لوٹس، اجنارا ، سپر ٹیک اور اومیکس سمیت قریب 26 بلڈروں کے پروجیکٹس بن رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نوئیڈا میں فلیٹ بک کرانے والے لوگوں پر بھی مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ بے شمار لوگوں نے یہاں گھر خریدنے کے لیے اپنی جمع پونجی لگانے کے علاوہ بینکوں سے بھی قرض لیا تھا۔ ان پروجیکٹوں میں قریب 25 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا اندازہ ہے۔ عدالتوں کے ذریعہ تحویل اراضی رد کے جانے سے ان کے آشیانے کے سپنے پر بجلی گر پڑی ہے۔ کسانوں کے بعد سرمایہ کاروں نے بھی عدالت کی پناہ لی ہے۔ 20 جولائی کو نوئیڈا ایکسٹینشنفلیٹ بایرس ایسوسی ایشن نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایک رِٹ داخل کر کے اپیل کی ہے کہ تحویل اراضی معاملے پر فیصلہ کرنے سے پہلے ان کاموقف بھی سنا جائے۔ گزشتہ 23   جولائی کو این ای ایف بی ڈبلو اے کے بینر تلے سرمایہ کاروں نے پیدل مارچ نکال کراپنی ناراضگی جتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پیسہ نہیں گھر چاہیے، ہمیں بھی انصاف چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکار کسانوں کو واجب معاوضہ دلا کر ان کے گھر کے سپنے کو ٹوٹنے سے بچائے۔حالانکہ بلڈروں کا کہنا ہے کہ عدالت کا حکم کچھ فلیٹوں کے لیے ہے، پورے ایکسٹینشن کو لے کر پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ بلڈروں کو یہ خوف ضرور ہے کہ اگر سبھی کسان عدالت چلے گئے تو ان کا بھاری  نقصان ہو سکتا ہے۔ بلڈروں نے بھی سرکار سے اس معاملے کو جلد سے جلد سلجھانے کی مانگ کی ہے۔ کنفیڈریشن آف رئیل اسٹیٹ ڈیولپرس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے مغربی اتر پردیش کے  عہدیداران گیتامبر آنند ، انیل شرما ، آر کے اروڑا اور منوج گوڑ کا کہنا ہے کہ سرکار اور اتھارٹی کو ایسا طریقہ اپنانا چاہیے ، جس سے فلیٹ بک کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے نقصان کی بھی بھرپائی ہو سکے۔

ایک اندازے کے مطابق ، مختلف بینکوں کے قریب 1200 کروڑ روپے پھنس گئے ہیں۔ حالانکہ بینکوں نے اس معاملے میں ابھی تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے، بتا یا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں بینک خود کو ٹھگا محسوس کر رہے ہیں، کیوںکہ انہوں نے نوئیڈا اتھارٹی کے علاوہ بلڈروں اور سرمایہ کاروں کو بھی قرض دیا ہے یعنی ایک ہی سرمایہ کے لیے تین تین قرض دیے گئے۔ ان پروجیکٹوں میں سب سے زیادہ پیسہ بھارتیہ اسٹیٹ بینک، پنجاب نیشنل بینک، بینک آف بڑودہ، ، ایکسِس بینک، ایچ ڈی ایف سی بینک، بینک آف مہاراشٹر، کارپوریشن بینک اور آئی سی آئی سی آئی کا لگا ہوا ہے۔ فی الحال بینکوں نے نوئیڈا ایکسٹینشن کے فلیٹوں کے لیے قرض دینے پر پابندی لگا دی ہے۔
نوئیڈا ایکسٹینشن میں تعمیر ی کام میں لگے ٹھیکہ داروں نے بھی کام روکے جانے پر  ناراضگی جتاتے ہوئے مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم پر کام رکنے سے ان کا کام کاج ٹھپ ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی تعمیر ی کام میں لگے ہزاروں لوگ بھی بے روزگار ہو گئے ہیں۔

ادھر، مرکزی فروغ انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل نے گریٹر نوئیڈا میں تحویل اراضی سے پیدا ہوئے حالات پر کسی بھی  طرح کا  تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ریاستی سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کا حل تلاش کرے۔ انہوں نے کہا کہ حتمی طور سے یہ بڑا مسئلہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ پورے ملک کے گھوٹالوں پر غور کریں تو زیادہ تر زمین اور دولت سے جڑے ہوئے ہیں۔
اب سرکار ، گریٹر نوئیڈا اتھارٹی، بلڈروں اور سرمایہ کاروں کو 17   اگست کے فیصلے کا انتظار ہے۔ بہر حال، سبھی کی کوشش ہے کہ معاملہ آپسی رضامندی سے ہی سلجھ جائے۔

0 Comments:

Post a Comment